حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی وزارت دفاع نہ صرف سابق افغان پائلٹوں کو بلکہ ہر وہ افغان جو کہ افغانستان کی سابقہ حکومت میں سیکیورٹی اہلکار تھا یوکرین میں لڑنے کی تربیت دے رہی ہے اور تربیت کے بعد ایسے افراد کو پولینڈ میں ٹریننگ دی جارہی ہے۔ اس سے قبل بھی بارہا یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ امریکا اور برطانیہ سابق افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو یوکرین میں لڑنے کے لیے تربیت دے رہے ہیں۔
روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف 24 فروری سے شروع کیا گیا خصوصی فوجی آپریشن اب ساتویں مہینے میں داخل ہو گیا ہے۔ روس نے بارہا کہا ہے کہ مغربی ممالک یوکرین کو ہتھیاروں کی جو کھیپ بھیج رہے ہیں وہ نہ صرف تنازع کو طول دے رہے ہیں بلکہ اس کے غیر متوقع نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جو جنگ جاری ہے، درحقیقت اس جنگ کی بنیاد امریکہ اور نیٹو نے ڈالی ہے اور انہوں نے اس جنگ کی آگ بھی بھڑکائی ہے اور اب یوکرین کو ہتھیار بھیج کر آگ میں ایندھن ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔۔ اسی طرح باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ یوکرین کی سمت کا ریموٹ کنٹرول امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ جب تک چاہے گا اس جنگ کو جاری رکھے گا اور اس جنگ سے ہونے والی تباہی کے ذمہ دار امریکہ اور وہ مغربی ممالک ہیں جو یوکرین کے پیچھے ہیں اور یوکرین کو ہتھیار اور دوسرے ممالک کے شہریوں کو یوکرین میں لڑنے کی تربیت دے رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جنگ میں جو لوگ مارے جا رہے ہیں ان کا ذمہ دار کون ہے؟ اس جنگ کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ 20ویں صدی کی سرد جنگ کی نئی اور جدید شکل ہے اور اس جنگ کے ذریعے امریکہ روس کے ساتھ اپنی پرانی دشمنی ختم کر کے روس کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اسی طرح امریکہ اس جنگ سے امریکہ میں ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کی جیبیں بھرنا چاہتا ہے۔ کیا یوکرین کی جنگ میں ہتھیار بھیجنا اور دوسرے ممالک کے شہریوں کو یوکرین جنگ میں لڑنے کی تربیت دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں؟
تاہم امریکہ نے نیٹو کی رکنیت کا جھوٹا خواب دکھا کر یوکرین کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے اور جنگ بند ہونے کے بعد شاید ایک صدی میں یوکرین اتنا کمزور ہو جائے گا کہ وہ اپنی کمر سیدھی نہ کر سکے گا۔
تاہم امریکہ کسی کا دوست نہیں ہے، وہ صرف اپنے مفادات کو دیکھتا اور سوچتا ہے، جہاں اس کے مفادات ہوتے ہیں، وہ ایک خیر خواہ اور خیر دلسوز کا روپ دھار کر وہاں پہنچتا ہے اور وہاں پہنچنے کے بعد اپنے مفادات کے کو نظر میں رکھتےمہوئے کام کرتا ہے۔ اس کے بعدفوجی اور غیر فوجی کارروائیوں اور سرگرمیوں کا آغاز کرتا ہے۔ یوکرین، تائیوان، جاپان اور شام جیسے ممالک میں اس کی سرگرمیوں کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔